آرٹیکلز

Page 01 Photo Album Photos My Files Welcome To Muneeb`s Website Chat Blog Sing in on yahoo Photo&cartoons Photo Pic Links

یہ مختلف آرٹیکلز دیے گئے ہیں ،آپ اپنا آرٹیکل بھی یہاں بھیج سکتے ہیں

پاسداران انقلاب پر ممکنہ پابندی، یا حملے کی طرف ایک قدم ؟ امریکہ اگر ایران کے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دیتا ہے تو سوال یہ پیدا ہو گا کہ آیا امریکہ ایران کو اقتصادی طور پر تنہا کرنا چاہتا ہے یا یہ ایران پر حملے کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔امریکہ کے مقتدر ترین جرائد اور اخبارات کے مطابق جن میں نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور امریکی خبررساں ادارہ ایسوسی ایٹڈ پریس شامل ہیں، بش انتظامیہ ایران کے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظم قرار دینے کا سوچ رہی ہے۔بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایاکہ گو کہ ابتدائی طور پر اس بات پر غور کیا جاتا رہا ہے کہ صرف پاسداران انقلاب کی قدس نامی تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔ کیونکہ یہ عراق میں شیعہ مزاحمت کاروں کو ہتھیار فراہم کرنے میں مبینہ طور پر ملوث رہی ہے لیکن خیال یہی ہے کہ پاسداران انقلاب کو کلی طور پر دہشت گرد قرار دیا جائے گا۔امریکی وزارت خارجہ ایران کو دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والی ریاست قرار دی چکی ہے لیکن یہ پہلا موقع ہو گا کہ کسی ملک کی سرکاری فوج یا عسکری تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔اس کا مقصد پاسداران انقلاب کی بین الاقوامی سطح پر چلائے جانے والی تجارتی کارروائیوں کو روکنا ہے۔ ان تجارتی سرگرمیوں میں تہران کے بین الاقوامی ہوائی اڈے اور تہران کے زیر زمین مواصلاتی نظام چلانے کی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔سلامتی کونسل کی طرف سے گزشتہ سال دسمبر اور اس سال مارچ میں منظور کی جانے والی دو قرار دادوں کے ذریعے ایران کے جوہری پروگرام سے وابستہ آلات اور مال کی تجارت کو نشانہ بنانا تھا اور ان قرار دادوں میں تین فضائی کمپنیوں کے نام بھی شامل تھے جو کہ پاسداران انقلاب کے زیر انتظام تھیں۔تازہ امریکی اقدام سے امریکہ اتحادی اور اس کے ساتھ تجارتی روابط رکھنے والے مزید دباؤ میں آئیں گے کہ وہ ایران سے اپنے تعلقات کو محدود کریں۔امریکہ سلامتی کونسل سے ایران کے خلاف مزید تجارتی اور دفاعی پابندیاں عائد کروانے کی کوشش کرے گا۔امریکہ کے نائب وزیر خزانہ سٹورٹ لیوی جو کہ انسداد دہشت گردی کے اقتصادی یونٹ کے سربراہ بھی ہیں اس سال یورپ کا دروہ کر رہے ہیں جہاں وہ مختلف حکومتوں اور تجارتی کمپنیوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ ایران سے لین دین بند کریں۔امریکی نائب وزیر خارجہ نکولس برنز نے اس سال امریکی سینیٹ کے سامنے ایک بیان میں اعتراف کیا تھا کہ امریکہ نے بڑے بڑے یورپی بینکوں سے کہا تھا وہ ایران کو قرضے مہیا کرنے بند کریں جبکہ یورپی ملکوں اور جاپان کو بھی ایران کے درآمدی قرضے کم کرنے کی بات کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق امریکی نائب صدر ڈک چینی چاہتے ہیں کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائیوں کی جائے جبکہ امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس سفارتی سطح پر ایران پر دباؤ بڑھانے کے حق میں ہیں۔تاہم یہ دباؤ کافی نہیں تھا۔ ایران اب بھی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنا جوہری پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنے جوہری منصوبے پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔تاہم امریکہ کی طرف سے ایران کے خلاف عراق میں مداخلت کرنے کے الزامات میں تیزی آ رہی ہے۔ صدر بش نے گزشتہ ہفتے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ امریکی عوام کو ایران کے بارے میں تشویش ہونی چاہیے۔ انہیں تشویش ہونی چاہیے کہ وہ عراق میں کیا کر رہا ہے اور انہیں اس کی بین الاقوامی سطح پر سرگرمیوں کے بارے میں بھی متفکر ہونا چاہیے۔لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ کیا امریکہ کی طرف سے یہ ممکنہ اقدامات ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق امریکی نائب صدر ڈک چینی چاہتے ہیں کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے جبکہ امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس سفارتی سطح پر ایران پر دباؤ بڑھانے کے حق میں ہیں۔ایران کے پاسداران انقلاب انیس سو اناسی کے انقلاب کے بعد وجود میں آئے تھے۔ لیکن بعد میں عراق ایران جنگ کے دوران انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔پاسداران انقلاب، ایران کی مسلح افواج کا ایک اہم لیکن علیحدہ حصہ ہے اور ان کی ذمہ داریوں میں اندرونی سلامتی اور سرحدوں کا دفاع بھی شامل ہے۔ انہوں نے حال ہی میں برطانوی بحریہ کے پندرہ اہلکاروں کو گرفتار کر لیا تھا۔ ایران کے بلیسٹک میزائلوں کا کنٹرول بھی ان کے پاس ہے اور جوہری شعبوں میں بھی ان کا عمل دخل ہے۔امریکہ اور اسرائیل پاسداران پر لبنان میں حزب اللہ ملیشیاء اور عراق میں شیعہ مزاحمت کاروں کو اسلحہ فراہم کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ایران کے صدر محمود احمدی نڑاد پاسداران انقلاب کے رکن رہ چکے ہیں اس لیے اس کے خ?لاف کارروائی کو ان کے خلاف تصور کیا جائے گا۔بش انتظامیہ کے اس اقدام سے امریکہ اور اس علاقے میں اس کے اتحادیوں کے درمیان ایران کے حوالے سے پائے جانے والے اختلاف اور سامنے آئیں گے۔ افغانستان اور عراق دونوں ملک ہی ایران سے قریبی روابط رکھتے ہیں۔(

شریف میاں! ورلڈٹریڈسینٹر کی صہیونی واردات (Enggineered & Controlled by Zionists)سابق وزیراعظم پاکستان نوازشریف کی جلاوطنی کے ایک سال بعد اورملکی روایت کے مطابق پاکستان کے ’’مشرف بہ فوج ‘‘ ہونے کے دوسال بعد وقوع پذیر ہوئی تھی ۔ مشرف انتظامیہ کہتی ہے اُس نے نوازشریف سے ’معاہدہ ‘ کیاتھاکہ وہ دس سال تک پاکستان واپس نہیں آئیںگے لیکن مارچ ۷۰۰۲ میںجب پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنی قانونی جنگ جیتنے کے بعدنوازشریف کی پاکستان آمد پر لگی پابندی کو بھی غیرقانونی قراردے دیا تو میاں نوازشریف غلط فہمی میںمبتلا ہوگئے ۔اس غلط فہمی کومشرف ۔بے نظیر ڈیل نے مزید ہوا دی۔ انہوںنے پرویزمشرف کی انتہا درجے کی عوامی طور پرنامقبول لیکن صدفی صد صہیونی امریکی کنٹرول والی حکومت کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا اور دس ستمبر ۷۰۰۲ کو لندن سے اڑکراسلام آباد پہنچ گئے لیکن ؂ اے بسا آرزوکہ خاک شد ہ ۔ دوگھنٹے تک توانہیں پی آئی اے کی فلائیٹ نمبر ۶۸۷ ہی سے اُترنے نہیںدیاگیا اورجب وہاں سے طلوع ہوئے توایئرپورٹ کی وی آئی پی لاؤئج میںڈھائی گھنٹے تک بٹھا کررکھے گئے اورپھرانہیں بیک بینی ودوگوش اپنے پورے لندنی لاؤلشکر کے ساتھ دوبارہ جدّہ روانہ کردیاگیا اورپاکستانی میڈیا کی اصطلاح میںمیاںجی سسرال ( یعنی جیل ) جانے سے تو بچ گئے ۔ لیکن مائکے جانے سے نہیںبچ پائے۔ غلطی اُن سے یہ ہوئی کہ وہ پاکستان میں’’جمہوریت ‘‘لانے کی مغربی کوششوںکو نہیںسمجھ سکے۔ جس کا بھانڈہ ایک پاکستانی لیڈر نے یوںپھوڑا ہے کہ امریکہ اب بی بی نظیربھٹوکی مدد سے جنرل پرویزمشرف کو ’’جمہوری حصار‘‘ فراہم کرناچاہتا ہے ۔ بُش اورمُش کی نگرانی میںہونے والے پاکستان کے آئیندہ پارلیمانی الیکشن میں مشرف اوربے نظیرکی پارٹیوں کے اتحادکو کسی بھی قیمت پر دوتہائی اکثریت دلانے کا منصوبہ ہے تاکہ دستورمیں ایک اورترمیم کرکے پاکستان میںکسی ’’حماس‘‘ کی کامیابی کے امکان ہی کوختم کردیاجائے ۔ ایک پاکستانی صحافی نے اپنے کالم میں اس صورت حال پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مغرب مسلم ممالک میں صدارتی یا پارلیمانی جمہوریت نہیں صرف ’’منہ زبانی جمہوریت ‘‘ لانا چاہتا ہے تاکہ اسلام پسند کبھی اقتدارمیں نہ آسکیں۔ ایک امریکی تجزیہ نگار نے کچھ روزقبل کہا تھا کہ نوازشریف اگرپاکستان میںآگئے اور ملک میں آزادانہ اورمنصفانہ الیکشن ہوئے تو پاکستان میں میاںنوازشریف قاضی حسین احمد اورمولانا فضل الرحمٰن کی تروئکا کی صورت میںایک ’’پاکستانی حماس‘‘اقتدار میں آجائے گا ۔ میاںنوازشریف اپنے اصلاح کاروں کے غلط مشوروںکے نتیجے میں متذکرہ بالا زمینی حقائق کو سمجھے بغیر اوراُس کے مطابق کوئی ٹھوس حکمت عملی تیارکیے بغیر ۰۱!ستمبر ۷۰۰۲ کو وہ غلطی کربیٹھے جس کے نتیجے میں’سُبکی ‘ ایک بار پھران کا مقدر بن گئی ۔ میاںصاحب کو ان کے رفقا ء نے یہ نہیں بتایاکہ عوام کی حکومت والی جمہوریت کی تعریف مسلم دنیا کے لیے نہیںہے ۔ بلکہ الجزائر میںاُسے جرنیلوں کے تابع ہوناچاہیے ‘ ترکی میں اُسے سیکولرازم کا وفادار ہونا چاہیے اورفلسطین میںاُسے پہلے اسرائیل کوتسلیم کرناچاہیے یعنی مسلم ممالک میںجمہوریت کا مطلب اسرائیل کو تسلیم کرنا ‘ سیکولرازم پرایمان لانا اورفوجی جرنیلوں کی دائمی بالادستی کو قبول کرنا ہے۔ مطلب یہ کہ عالم اسلام میںجمہوریت کا مفہوم یہ ہے کہ اول تووہاں جمہوریت ہی نہ ہو‘ اورہوتو محض کٹھ پتلی یعنی ’منہ زبانی ‘ ہوسیکولر ہو‘لبرل ہو‘ روشن خیال ہواورسب سے بڑھ کے یہ کہ پوری طرح صہیونی مفادات کے تابع ہو۔ میاں نوازشریف جدہ اور لندن میں اتنے دنوں تک رہنے کے باوجود یہ نہ سمجھ سکے کہ پوری مغربی دنیا تو صہیونی لابی کے کنٹرول میںہے ہی ‘ اب وہ پورے عالم اسلام کوبھی اُسی طرح اپنے کنٹرول میںرکھنا چاہتی ہے لہٰذا پاکستان میں صہیونی لابی نوازشریف جیسے ’ میاں ‘ کارِسک (Risk) بھی اس وقت تک نہیںاُٹھانا چاہتی جب تک کہ وہ بھی مشرف اوربے نظیر کی طرح اُس کی غلامی کا قلادہ اپنی گردن میںنہیں ڈال لیتے ۔(یو این این)

پاکستانی قوم مجبور محض یا۔ ۔ ۔ مرد؟ پاکستان میںایک بارپھر آمریت کی سربلندی اور جمہوری پرچم کا سرنگوں ہونا غالباًاس بات کی پیش قیاسی ہے کہ مملکت خدا داد میںبرگیڈوںاور جرنیلوں کی غنڈہ گردی فی الحال جاری رہے گی اورجمہور کے جذبات و احساسات کوافواج جوتیوں تلے روندتے رہیںگے۔پاکستان پہنچتے ہی میاں نواز شریف کی گرفتاری اور پھرجلا وطنی کی قیاس آرائی اسی وقت سے شروع ہوچکی تھی جب سعودی فرماںرواں کے معتمد اور شام کے سابق وزیر اعظم رفیق الحریری کے صاحبزادہ سعد الحریری نے نواز شریف کوواضح لفظوں میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ معاہدہ کی پاسداری کریں اوروطن نہ لوٹیں۔ مذکورہ صاحبان کی صدر مشرف سے ملاقات اورمیڈیا سے خطاب کا بین السطور یہ بتارہا تھا کہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا شاخسانہ گرفتاری کی صورت میں ہی نمودار ہوگا۔ یہ اور بات تھی کہ قیاس کے گھوڑے دوڑانے والے اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے کہ انہیں قلعۂ اٹک میں دوبارہ پابند سلاسل ہونا پڑے گا یا پھر جلاوطنی ان کا مقدر بنے گی۔ بہرحال نوازشریف کی گرفتاری اور دوبارہ جلا وطنی کے ساتھ ہی پاکستان میں جمہوری سورج کے ایک بار پھر طلوع ہونے کی بشارت سنانے والے صدمہ میں ہیںکیونکہ مشرف نے گویاایک طرح سے جمہوری باب کوتقریباً بند کردیا ہے ۔حالانکہ وطن لوٹتے ہوئے میاں نواز شریف اس خوش گمانی میں مبتلا تھے کہ پاکستانی عدلیہ مشرف کے تئیں سخت دل ہے لہٰذا انہیں بدعنوانی سے متعلق معاملات میں راحت مل سکتی ہے اورآنے والے دنوںمیں مشرف کی اینٹ سے اینٹ بجانا بہت زیادہ دشوار نہیں ہوگا لیکن اس سے قبل کہ معاملہ عدالتی موشگافیوں کی نذر ہوتا مشرف نے کمال ہوشیاری کا ثبوت دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم پاکستان کے لیے اپنی ہی سرزمین تنگ کردی اورآخرکو حیل وحجت اور تصادم کے جملہ مراحل کی تکمیل کے بعدنواز شریف گرفتار کرکے جدہ بھیج دیے گئے۔گویا مشرف حکومت نے ایک بار پھر یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوری قدروں کوکچلنے پر کامل یقین رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کے صدر پاکستان رہتے ہوئے صرف اور صرف آمریت ہی پروان چڑھ سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی منظر نامہ اونٹ کے کس کروٹ بیٹھنے کے اشارے دے رہا ہے۔مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں در آنے والی خامیوں کی بنا پرجو ناہمواریاں جڑ پکڑ چکی ہیں انہیں دور کرنا عدلیہ کے لیے بھی بہت زیادہ آسان نہیں ہوگا اور جمہور کے ارمانوں کاگلا گھونٹنے کی روایت شایدتادیربرقرار رہے گی۔ برصغیر کا یہ بڑا المیہ ہے کہ ہندوستان کی کوکھ سے جنم لینے والی دو مملکتوںیعنی پاکستان اور بنگلہ دیش میں آمرحکومتیں کچھ اس قدر مستحکم ہوچکی ہیں کہیہاںرائے عامہ کی مرضی کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے افواج نے اپنے اپنے قلعۂ اقتدارپر قبضہ کیا ہوا ہے۔ایک طرف اگرپاکستان میں مشرف بریگیڈ کی غنڈہ گردی آئے دن نئے تماشے دکھا رہی ہے تو دوسری جانب بنگلہ دیش کی بھی حالت کم دگرگوں نہیں ہے۔پاکستان کے دو سابق وزرائے اعظم اگرایک طرف جلا وطن ہیں تو دوسری جانب بنگلہ دیش کی دو سابقہ سیاسی حسینائیں سلاخوں کے پیچھے ہیں۔یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ دونوں ممالک کے عوام ایسی حکومتوں کے تسلط کے شکار ہیںجوکہیں نہ کہیں سے بیرونی اشاروں پر کام کررہی ہیں اور اپنوں کے خون کی پیاسی بنی ہوئی ہیں۔دنیا یہ تو جانتی ہے کہ مشرف کے سرپر براہ راست بش بہادر کا دست شفقت ہے لیکن کم ہی لوگوں کو یہ معلوم ہے بلاواسطہ طورپر بنگلہ دیشی ارباب اقتدار کو بھی امریکہ خاموشی کے ساتھ نوازتا رہا ہے اوربعض اوقات اعلانیہ طورپر اخلاقی تائیدبھی دیتا رہا ہے۔ گویا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر برصغیر کے یہ دونوں ممالک آمروں کی نذر ہیں تو پس پردہ طور پر دونوںکو امریکہ کی ہی پشت پناہی حاصل ہے۔ بالفاظ دیگر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ افغانستان کو تہہ وبالا کرلینے کے بعد امریکہ بہادر کی نگاہ عتاب پاکستان اور بنگلہ دیش پر ٹکی ہوئی ہے اور تاریخی سچ یہ بھی ہے کہ اس کے لیے دونوں ممالک کے میران جعفرفضا ہموار کرتے رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک طرف اگردنیا بھر میں جمہوریت کے نام پرامریکہ طوفان بدتمیزی برپا کرتا رہا تو دوسری جانب عراق اور افغانستان کی حکومتوں کو بے اقتدار کرنے کے نام پربھی اس نے جمہوریت کاہی ڈنکا بجایا ۔ہر کسی کو معلوم ہے کہ طالبان حکومت پر حملہ کے دوران امریکہ نے زور شور سے جمہوریت کو مستحکم کرنے کاہی نعرہ بلند کیا تھا،عراق میں بھی صدام کی معزولی کیلئے اسی ہتھیار کا استعمال کیا گیا تھا لیکن آج کی تاریخ کا کڑوا سچ بھی یہی ہے کہ پاکستان کے فوجی آمر کوامریکہ کی ہی سب سے زیادہ سرپرستی حاصل ہے۔ کم وبیش یہی صورت حال بنگلہ دیش میں بھی دیکھی جارہی ہے جہاں صاحبان سیاست سلاخوں کے پیچھے ڈال دےئے گئے ہیں اور جمہوریت کے پروں کو کترنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے۔ امریکہ کے اس دوہرے معیارسے صاف ظاہرہورہا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے اور برصغیر پربالخصوص اپنی مرضی تھوپنے کے ارادے پر عملاً گامزن ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بدعنوان سیاست دانوں کو بے لگام چھوڑ دیا جائے کہ وہ قومی سرمایے کو اپنے باپ کی جاگیر بنانے میںلگ جائیں لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ بدعنوانی کے خاتمے کو بنیاد بنا کر جمہوری روایات کا ہی گلا گھونٹ دیا جائے۔ پاکستان کا موجودہ سیاسی منظر نامہ اس حقیقت کو ظاہرکررہا ہے کہ مملکت خدا داد میں فوجی آمر نے جمہوریت کے لیے مکمل طور پر زمین تنگ کردی ہے اور بدعنوانی اور بے ضابطگی کو عار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سیاستدانوں کوجلا وطن کرنے اور سلاخوں کے پیچھے ڈالے جانے کی حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے۔ویسے بھی پاکستان کی سیاست میں یہ پہلا موقع نہیں جب بہ زور بازو جمہوریت پسندوں کو دھکے مارے گئے ہوں اور رسوائیاں ان کا مقدر بنی ہوں۔خود میاں نواز شریف ایسے دھکے کھانے کے عادی رہے ہیں اور ان کی حریف خاص محترمہ بے نظیر بھٹو کوبھی سردوگرم کا کم سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔جنرل مشرف تواپنے پیش رو کی سنت نبھا رہے ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ ارض پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بڑا حصہ آمریت کے دست نگیں رہا ہے اور وقفے وقفے سے جرنیل اقتدار پر قبضہ جماتے رہے ہیںاورحق یہ بھی ہے کہ اسی بہانے انہو ںنے عیش کدوں کی بھی سیر کی ہے۔ چند ایک اختصاص کو چھوڑ کر باقی ماندہ جرنیلوں نے اقتدار پر قبضے کو تعیش پسندی کا ذریعہ بنایا اور ’احتساب برائے سیاست داں‘ کا شگوفہ چھوڑ چھوڑ کر صاحبان سیاست کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈالی گئیں۔ پاکستان کی تاریخ کی یہ تلخ سچائی 60برسوں کی مدت میںجاری آمریت بنام جمہوریت معرکہ آرائی کی نت نئی تصویریں پیش کرتی رہی ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک چاہ ایوان پر افواج کے تسلط کا سفر اس حقیقت کی چغلی کھا رہا ہے کہ ہر تھوڑی مدت میں یہاں جمہوریت پسپا ہوتی رہی ہے اور آمریت کا پرچم لہراتا رہا ہے۔ آج کی تاریخ میں اگر ایک بار پھر جمہوریت کا پرچم سر نگوں ہوا ہے تو اس میں حیران کردینے والی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حیرت کی بات یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستانی قوم مجبور محض بن چکی ہے یا نا۔ ۔ ۔ ہوچکی ہے؟ بحث کا موضوع یہ ہوسکتا ہے کہ اگر مجبور ی ہے تو کیا ہے اور اگر قوم نامرد ۔ ۔ ۔ ہے تو اس۔ ۔ ۔ کا علاج کیا ہے؟ جہاں تک پاکستانی اقتدار پر افواج کے بار بار تسلط کا تعلق ہے تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اختیارات کے تعین سے یہ معاملہ مکمل طور پر جڑا ہے۔ ہندوستان کی طرح ہی اگر پاکستانی نظام حکمرانی میں اختیارات متعین کئے جاتے تو شاید پاکستان کو ایسے دن دیکھنے کو نہیں ملتے ۔اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں رائے عامہ کیا کرے،جبکہ حکومت کے انتظام وانصرام سے لے کر زندگی کے جملہ شعبوں پر فی نفسہٖ بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر افوا ج قابض ہو؟بے شک مرحلہ خاصا دشوار ہے ،راستے مسدود ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ان راہداریوں کو عبور نہ کیا جاسکتا۔سچائی یہ بھی ہے کہ پاکستان کو ایک بڑے عوامی انقلاب کی ضرورت درپیش ہے۔ ایک ایساانقلاب جو جرنیلوں کے ناپاک عزائم کو چکنا چورکرنے کی صلاحیتوں سے لبریز ہو، ایک ایسا انقلاب جو بدعنوانی وبے ضابطگی کو راہ دینے والوں کو کچلنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہو، ایک ایسا انقلاب جو پاکستان کو آمریت بنام جمہوریت معرکہ آرائی سے نجات دلانے کا اہل ہو، ایک ایسا انقلاب جو پاکستانی قوم کی رگوںمیں دوڑنے والے لہو کی سرخی کو معتدل رکھتے ہوئے سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کا متحمل ہو۔اس انقلاب کیلئے لازمی ہے کہ قوم کے جیالے بے خطردھکتی آگ میںکودپڑیں،اس عزم اور ارادے کے ساتھ کہ جمہوریت کا سورج طلوع کئے بغیر ہم سکون کی نیند نہیں سوسکتے،خواہ اس کے لیے کتنوں ہی بڑی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑجائیں۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ سیاست کے نام پر بدعنوان لوگوں کی فوج تودکھائی دیتی ہے لیکن دور دور تک پاکستان میں کوئی ایسا غازی نظر نہیں آتا جو جمہوریت کی قربان گاہ پر جام شہادت نوش کرنے کو تیار ہو۔ پاکستانی قوم کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک ایسا غازی پیدا نہیں ہوگاجو بیک وقت وردی میں ملبوس حرص و طمع کے پیکروں اور سیاسی چولے میں وارد ہونے والے بدعنوان لوگوں کی خبرلینے کی سکت رکھتاہو، جابر وقاہر فوج اس قوم کی خبر ڈنڈوں سے لیتی رہی گی اور اچھا بھلا ملک بیرونی عناصر کا آلہ کار بن کر اپنی معیشت ومعاشرت کو گروی رکھنے پر مجبور ہوتا رہے گا۔ کاش کوئی ایسا غازی پیدا ہوتا جس کی شہادت رنگ لاتی اور پاکستان میں کبھی نہ جھکنے والا جمہوریت کا پرچم لہراتا۔

جہاں آج تہذیبوں کے تصادم کے نظریہ کی جعل سازی کوبے رحیمی سے کچلنے کرنے کی ضرورت ہے وہاں سوشلزم اور کفر ازم کو گھڈ مڈ کرنے کی بھیانک سازش کو بھی بے نقاب کر کے ا س کی وضاحت ضروری ہے تاکہ حکمرانوں کے بھیانک چہرے کو ننگا کر کے عوام کے سامنے لایا جاے جو محنت کشوں کی جدوجہدکی تباہی اور ان پر استحصالی جکڑ کے لیے ہر لہمے نئے نئے جال بونتے رہتے ہیں۔ آج پوری دنیامیں سوشلزم اور کیمونزم کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں اور جھوٹا منافقانہ پراپیگنڈہ موجود ہے جو عالمی اور مقامی حکمرانوں اور ان کے حواری میڈیہ کا پھیلایا ہوا ہے جو عوام اور محنت کشوں کے انقلابی شعور کوسرمایے کی زنجیروںسے جکڑ کر پسماندہ کھنے کی انتہائی کو شیش ہے تا کہ نہ صرف ان کے ظلم کی حکمرانی قائم رہے بلکہ ان کی لوٹ گھسوٹ اور مالیاتی جبر کو عوام اف کیے بغیر خا موشی سے سرخم تسلیم کریں اور اپنا مقدر یا قسمت سمجھ کر اسے قبول کریںیہ بہادر اور دلیر عوام کو خسی کرنے کا ہھیار ہے تا کہ وہ اپنے مسائل اور اذیتی زندگی کے خلاف نہ لڑیںبلکہ سسک سسک کر زندگی گزرتے ہوے تڑپ تڑپ کر مر جائیں۔ کیونکہ سوشلزم کا نظریہ اور سوچ عوام کا وہ واحد سائنسی اور مضبوط ہتھیار ہے جس کے زریعے وہ اپنے تنگ دست حا لات کے خلاف لڑکر فتح یاب ہو سکتے ہیں یہ نظریہ محنت کش عوام کا عالمی طبقاتی اتحاد اور ہر تعصب سے پاک ناقابل تسخیر جڑت ہے اور یہ عوام کا عالمی اتحاد ہی ان کی جیت اور حکمرانوں کی ہار ہے اس لیے آج کے ہر ظالم کے لیے سوشلزم اور کیمونزم ایک اچھوت ہے کیونکہ یہ انکی عیاشیوں اور تماش بینیوں کی موت ہے اور موت بھلا کیسی بھی ہو کون خوشی سے گلے لگاتا ہے اور پھر عیاش اور دولت مند جو معمولی سی بیماری سے بھی خوف زادہ ہے،اور دولت ہر طریقہ سے ہر وقت حاصل کر نے کے لیے دیوانے رہتے ہیں۔ اس لیے سرمایہ داروں،جاگیر داروں اور حکموں کے سوشلزم کے خلاف پراپیگنڈے کی جو تائئداور تقلید کر تا ہے وہ بھی عوام دشمن اور ظلموں کی صفوں میں شعوری یا لاشعوری طور پر کھڑا ہے۔ سوشلزم اور کیموم نزم کو جہاں تمام ممالک کے حکمران اور دولت مند غیریبوں ناداروں کانظریہ قرار دے کر حقارت اورنفرت کرتے ہیں اور عوام سے ان کے رویے اور سلوک میں بھی تمام منافقت کے باوجود یہ چیز نمایا ں ہے سا لانہ بچٹ اور تمام ملکی،سیاسی،سفارتی،معاشی،سماجی پالیسیاں اس کی غماز ہیں۔ غیریب عوام بھی آخیر انسان ہیں جن کو یہ درلت مندانسان نہیں مانتے یہاں غربت ایک جرم ہے جو غیریبوں نے نہیں کیابلکہ یہ امیروںکے جرائم ہیں جنکی سزا عوام بھگت رہی ہے ان کے خون پسنے پر امارات کے قعلہ تعمیر کرنے والے ہی آج عالمی عوام اور ہر معاشرے اور دنیا کی ہر تباہی کے ذمہ دار ہیں جو اپنے منافوں کی اندھی حواص کے اضافوں کیلیے اس کرہ ارض کو جہنم بنا رہے ہیں خونی اور بھیانک طاقت کے استعمال سے تیل ،سرمایہ اور قدرتی وسائل کی لوٹ مار ہی آج جنگوں کا باعث ہے جنگل کے قانون کا ہر طرف راج ہے جو امن اور جمہوریت کی آڑ میں ہے جسکی امریکہ سرپرستی اور سربراہی کرتا ہے۔ سوشلزم کے خلاف اور اپنے مفادات کے لیے یہ عالمی زر دار اور ان کے زرائع ابلاغ مختلف ممالک میںمختلف ہتھکنڈے اپناتے ہیں خاص طور پر مقامی تہذیب، اطوار،رسموں رواج، ثقافتوں، رشتوںاور ان سے منسلک جذبات احساسات اور تقدس کوبھر پور طریقہ سے استعمال کرنے کی کوشیش کرتے ہیںاس غرض کے لیے وہ یہاں کی ہر پارٹی،تنظیم،خاندان،ویلفر سوسائٹی،حکومت،ریاستی ادارے،پارلیمنٹ، عدالتیں، پولیس،فوج، افسرشاہی، تعلیمی اور تربیتی ادارے،مذاہب،کو اپنے حق اور جوازکی دھوکہ دہی میں مکمل شامل کرتے ہیں اور انکی لیڈر شپ بھی انہی میں سے ہوتی ہے یا پھر انکی زر خرید غلام ہے جو امیروں کے ہر ظلم اور جرم کو ثواب اور عدل قرار دیتی ہے اور عوام کے اپنے حقوق اور زندگی کی ہرجدوجہد کوگناہ کبیرہ اور ناقابل معافی جرم کے فتوئے صادر کرکے قانون سازی کرتی ہے۔ پا کستان اور اسلامی ممالک میں سو شلزم کو کفر ازم بھی کہا جا تا ہے جو کم علمی وعقلی اورغلط انفارمیشن کی وجہ ہے یہاں اسلام کوسوشلزم کے خلاف استعمال کرنے کی سعی کی جاتی ہے اس کی وجہ لوگوں کا اسلام سے جذباتی لگا ہے یہ استحصالی پراپیگنڈہ شائد عام حالات میں اثر رکھتا ہے، لیکن عوامی تحریک کے ادوار میں اس پراپیگنڈہ کا چھوٹ اپنے پاں کھو دیتا ہے1967-68کی عوامی تحریک میں اس کا ٹھوس ثبوت اور زندہ مثال ھمارے پاس ہے جب نہ صرف قومی اتحاد کے رد شدہ مولویوں بلکہ پاکستان کے تمام ملاں کے علاوہ خانہ کعبہ کے مولوی نے یہ فتوے صادر کیے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو جو ووٹ دے گا وہ کافر ہو گا سوشلزم کو ووٹ کفر ازم ہے اور پی پی کوووٹ دینے سے شادی شدہ لوگوں کے نکاح ٹوٹ جائیں گئے۔ لیکن عوام نے تمام عالمی ملاں کے عوام کے خلاف اس اتحاد کوایک تاریخی شکست فاش دی اور انکی سامراجی غلامی کو بری طرح رد کر دیا۔اور تب عوامی طاقت نے پی پی کی جیت میں اپنا لوہا منوایا جس کا پروگرام ،مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان ،طاقت کا سر چشمہ عوام،جمہوری سیاست اور سوشلسٹ معشیت تھا یہ صرف ایک مثال نہیں ہے بلکہ ایک ٹھوس سچ اور زندہ حقیقت ہے کہ عام حالات میں جب کوئی عوامی تحریک موجود نہیں ہوتی یا پھر روائتی محنت کشوں کی پارٹیوں کی قیادتوں کی غداری اور بار بار کی دھوکہ دہی سے مایوسی کی غمازی رجعت پرستی کے رحجان سے ہوتی جو یہ کسی بھی تعصب،فرقہ واریت، قوم، نسل، زبان، علاقہ پرستی اور نفرت کی شکل میںاپنا اظہار کرتی ہے جو کہ دیر پا اور مستقل نہیں ہوتی بلکہ عارضی اور فروہی ہوتی ہے جسکو تھوڑا سا عوامی ارتعاش ہی اسے جھاگ کی طرح بیٹھا دیتا ہے حقیقی مسائل اور زندگی میدان عمل میں ہوتی ہے اور یہی انقلابی اور عوامی زندگی کی تبدیلی کی تحریکیں ہوتیں ہیں۔ پاکستان میں بھی آج رجعتی یلغار اور فوجی آمریت کی وجہ پاکستانی عوام کی روائتی پارٹی،پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا اپنے انقلابی منشور سے انحراف عوام کی معیار زندگی میںبہتری کی خواہشتات کا قتل، اور اپنے سوشلسٹ پروگرام سے بار بار غداری نے پاکستان کے عوام میں مایوسی کو جنم دے کر بڑھا یا ہے اور اس مایوسی میں ردانقلابی قوتیں اپنے پر پروزے نکل لیتی ہیں جسکو صرف اور صرف پھر محنت کش طبقہ کی انقلابی تحریک بھی شکست دی سکتی ہے،مشرف تو خود اسی رجعت پرستی کا حصہ ہے وہ بھلا کیسے اس بنیاد پرستی کی جنونیت کا خاتمہ کر سکتا ہے اس سے ایسی توقع کر نا احمقوں کی جنت میں رہنا ہے۔ سوشلزم کی تعریف اور مفہوم اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ،سوشلزم اور کیمونزم استحصال سے پاک معاشرے کا قائم ہے جہان انسان کی مانگ کا خاتمہ ہو گا ۔ مارکسزم ایک سماجی سائنس ہے جس طرح زندگی کی بائیلوجی،مادے کی فزکس،کیمیکل کی کیمسڑی ہے جومعاشرے میں انسان کو ال حثیت دے کر اس کی تمام ضروریات کی باز یابی کی مکمل ضمانت ہے طبقاتی اور غیر مساویانہ سماج کے خلاف ٹھوس اور مادی جہدوجہدکے قوانین کی اگاہی دیتی ہے انسان کو اپنا مقدر خود بنانے کی ترغیب اور تمام سماجی زریعے پیداوارکو بھر پور استعمال کر کے انسانی سماج سے استحصال بھوک ننگ افلاس کا مکمل خاتمہ کر کے روٹی کمانے کی زلت آمیز مزدوری سے نجات اور اس محنت کو تخلیق اور تسخیر کائنات کے لیے کار آمد بناناہے نہ کہ ساری زندگی انسانوں کی ایک بڑی اکثریت چند لوگوں کی مراعات اورعیاشیوں کے لیے مزدوری اور غلامی کرتی رہے ۔اس لیے سوشلزم کا بھی تمام مذاہب سے وہی تعلق ہے جو دوسری سائنسیس کا مذاہب سے ہے پھر یہ سوچنے کی بات ہے کہ صرف سوشلزم کی سماجی سائنس کے خلاف ہر وقت ہر جگہ اسی کے خلاف اتنا پراپیگنڈہ کیوں ہے؟ یہ با لکل صاف اور واضح ہے اور مارکسزم کا تھوڑا سا بھی علم رکھنے والا اس کا منہ تواڑ جواب بڑی آسانی سے دے گاکیونکہ یہ نظریہ عوام کواس کی اپنی زبان،عزت نفس،اپنی قسمت،تقدیر اوراپنی بے پناہ طاقت اور اسکی آگاہی عطا کر تا ہے۔ اور یہی دولت مندوں کو قابل قبول نہیں جس سے ان کا سرمایہ پر قائم رتبہ اور فضلیت کو نقصان پہنچے ملا،پنڈت اور پادری بھی اپنی مراعات کے لیے انہیں کے محتاج ہیں اس لیے یہ بھی انہیں کے گن گاتے ہیں اور معصوم اور لا علم شہریوں کو اپنے جہالت کے پھندے میں پھنسا کر اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں خود کش حملے کرنے والے انہیں کے مہرے بنتے ہیں جو وہ اپنی معاشی اور سماجی ضرورتوں کے تحت ان بے چاروں کے حا لات اور پسماندہ شعور سے فائدہ اٹھا کر چلتے ہیں۔ یہ مذہب کی آڑ میں لوگوں کو تو اپنے آج کو کل پر قربان کرنے کی نیک ہداہت اور تلقیں کرتے ہیں جبکہ اپنا آج زیادہ سے زیادہ خونصورت اور حسین بناتے ہیںہمیں خاموشی سے تکلیفیں،دکھ،درد اور عذاب جو کہ موجودہ نظام کی دین ہے برداشت کرنے کو گناہوں کا ازلہ اور امتحان کی گھڑی کہہ کر صبر کا درس دیتے ہیںجبکہ یہ خود ہر امتحان اور گناہوں سے بالاہیں اور اپنے مفادات کے حصول میں یہ کمال کی بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آج پاکستان کے عوام کی شعوری تباہی اور ملکی تباہی، بربادی میں ان کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے ۔ جو یہ ہمیں علماتبلیغ کرتے ہیں انکی اپنی ذاتی زندگی اس کے بالکل الٹ ہے انکا رہن سہن، خوراک، علاج سفر،غرض ہر سہولت اور آسائش موجود ہے انکی اولادیں یورپ اور امریکہ میں تعلیم اور ہر عیاشی کا مزہ لوٹ رہے ہیں،مذہبی جماعتوں کے رہنماں کی زندگیاں اور ان کے بچوں کے حالات آج عوام سے ڈھکے چھوپے نہیں ہیں جو عوام کی زندگیوں سے مختلف ہیں،جب کے یہ پھر بھی بڑی بے شرمی اور ہٹ دھرمی سے ہمیں صبر اور قناعت کاسبق دیتے نہیں تھکتے اور خود نہیں بلکہ صرف ہمیں ہی جہنم کے خوف سے ڈراتے ہیں، یہاں مجھے چور مچاے شور کی کحاوت یاد آتی ہے۔ جبکہ یہ اپنے مفادات پر کسی قسم کی ہلکی سی چوٹ بھی برداشت نہیں کرتے ان کی حفاظت کی فکر ان کو ہر وقت لاحق رہتی ہے،ایم،ایم ،اے کا حدود آرئینس کے خلاف تمام بدبو دار شور اور پراپیگنڈے کے باجود اسمبلیوں کی عیاشوں سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیںان کے قول اور فعل کا تضاد ایک بار بھر ثابت ہو چکا ہے اور یہ کوئی نیا اور پہلی بار نہیں ہوا بلکہ یہ ان کے جھوٹ،فراڈ اور دھوکہ دہی کا مسلسل تسلسل ہے،شرم مگر ان کو نہیں آتی۔ اور شوسلزم کے خلاف ان کا سفید جھوٹ اور الہامی پراپیگنڈہ بھی ان کی مراعات ،آسائشوں،با لادستی اور حکمرانی کا دفاع ہے اس سے زیادہ اس میں کوئی صداقت اور سچ نہیںہے۔ آج عالمی سطح پربھی سوشلزم کو نہایت توڑ موڑ کر پیش کیا جاتاہے تا کہ ظلم اور طبقاتی استحصال کی حکمرانی کو قائم رکھا جا سکے اس کے لیے جہاں وہ مسلم ممالک میں مذاہب کو بڑی بے دردی اور بھونڈے طریقہ سے استعمال کر تے ہیں وہاں وہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کو آمریت اور ناکام نظریہ گردانتے ہیں اس کے لیے وہ روس اور مشرقی یورپ کو بطور بہترین مثال پیش کرتے ہیں۔ یہ جھوٹ نہ صرف پاں کٹا ہے بلکہ سر کٹا بھی ہے اور یہ صرف ان حکمرانوں کا کمال ہے کہ انہوں نے اس کو کھڑا کیا ہوا ہے حئی کہ یہ کوئی انسانی نہیں بلکہ خدائی کام ہی ہو سکتا ہے ویسے تو یہ بھی خدائی طاقت کے دعوے دار ہیں۔ حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے۔ پہلی اور فیصلہ کن متفقہ بات یہ ہے کہ کسی ناکامی یا کامیابی کوانسانوں پر استحصال کے لیے استعمال کر نا غیر انسانی ،قابل نفرت اور قابل مذاحمت ہے روس اور مشرقی یورپ کی ناکامی کو ہم بھی تسلیم کر تے ہیںکھلے دماغ اور وسیع ظرف سے لیکن اس طرح جس طرح سچ اور حقائق ہیں نہ کہ ظلم کے لیے جواز اور تنگ نظری سے۔ روس اور مشرقی یورپ کی ناکامی کی بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ سوشلزم، کیمو نزم کیا ہے؟کیا ان ممالک میں سوشلزم آیا تھا؟ کیسے؟اور کیوں؟ اور کس لیے؟ اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کیا تبدلیاں ہوئیں؟اور پھر ہم اس کی ناکامی کے اسباب پر بات کرنے کے قابل ہو سکیں گئے ہمارے حکمرانوں کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے اور ان کے ماننے والوں کی کہ ان کے نزدیک اپنی جہالت پر ہٹ دھرمی سے ڈٹے رہناہی علم و دانش ہے اور اس کا ان کو چاہے رتی بھر بھی علم نہ ہو یہ ہر علم اور چیز کو چاہے ان کو اس کا علم ہو یا نہ ہو یہ اپنی برتری اور افضلیت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ نیم حکیم خطرہ جان اور نیم دانش علم کی دشمن ہوتی ہے۔ حقائق اور تاریخ ہمیں یہ بتاتے ہیں کے روس میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں عوام کی ایک بڑی اکثریت نے ظالم ترین زار شاہی کی سرمایہ دارانہ حکومت کا تختہ الٹ کر مزدور جمہوریت قائم کئی تمام ذرائع پیدارار کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیے کر بھر پور استعمال میں لا کر زیادہ سے زیادہ پیداوار کر کے عوامی ضرورتوںکو پورا کرنے کی مکمل کوشیش کی گئی۔جس کے نتیجہ میں اس انقلاب نے رو س کو چند ہی دہائیوں میں ایک پسماندہ ترین ملک سے جو آج کے پاکستان سے بھی کہیں زیادہ ترقی پذیر ملک تھا نہ صرف ترقی یافتہ بنادیا بلکہ سوویٹ یونین دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور بن کر ابھرایہ ترقی نہ صرف انسانی تاریخ میں پہلی بار ہوئی تھی بلکہ سرمایہ دارنہ سماج میںایسی اعلی اور تیز ترین ترقی کا تصور بھی ناپید ہے جس کی بدولت سماج میں انسان کی حقیقی آزادی کو ٹھوس مادی بنیادیں میسر آئیںہمارے دشمن بھی اس کا اقرار کریں گئے۔ خوندگی 99فیصد تھی،دنیا میں سب سے زیادہ یونیورسٹی ہولڈر، ڈاکٹر،انجنئیر،سائنس دان اور ماہرین روس کے پاس تھے ترقی کی شرح 28فیصد سے30فیصد تک پہنچ گئی تھی ،خلائی نظام میں میں بھی روس کو دنیا میں اول حثیت حاصل ہے، اس نے سب سے پہلے چاند پر خلائی شٹل بھج کر دنیا کو حیران کردیا،30 سے زائدبنیادی اور ا ہم صنعتوںمیں دنیا کی سب سے زیادہ پیداوار کر تا تھا ،آج بھی انڈر گرونڈ مترو کے نظام میں دنیا کے پہلے نمبر پر ہے، عورتوں کی مردانہ حاکمیت اور طبقاتی،درجاتی استحصال کے خلاف عملی اقدامات کیے گئے،بچوں،بوڑھوںاور عورتوں جو سرمایہ دارانہ سماج میں سب سے زیادہ ظلم کا شکار ہوتے ہیں کو ریاستی مکمل تحفظ دیا گیا،بنیادی اور ثانوی تعلیم تمام آبادی کے لیے مفت اور لازمی تھی ،بیروزگاری ایک جرم تھا ،وغیرہ وغیرہ۔ اس 1917کے بالشویک انقلاب نے نہ صرف دنیا پر اس حقیقت کو آشکار کیا کہ ماکسزم ایک خیالی اور خوابی نظریہ ہی نہیںبلکہ عملی اور آج انسانی ترقی اور سماجی ارتقا کے لیے ناگزید ہے۔ انقلاب کی تعمیر اور ثمرات کو نہ صرف قائم رکھنے بلکہ ان کو بڑھانے کے لیے لینن نے چار بنیادی اصول واضح کیے تھے۔ ۔تمام ریاستی اہکار پنجائتوں سے منتخب ہو کر اوپر آئیں اور اپنا عرصہ پورا کرنے کے بعد واپس جائیں،بدعنوانی کے الزام میں ملوث افراد کو اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے بھی واپس بولانے کا اختیار پنجائتوں کو ہو۔ ۔ایک مخصوص فوج کی بجائے تمام عوام کواجتماعی طور پر مسلح کیا جائے۔ ۔کسی بھی ریاستی اہلکار کی تنخواہ ایک عام ہنر مند مزدور سے زیادہ نہ ہو۔ ۔تمام معشیت عوام کے جمہوری کنٹرول میں ہو۔ یہ ایک انقلاب کے عبوری دور کا عبوری پروگرام تھا۔جس کے ساتھ لینن نے کہا تھا کہ روسی انقلاب کی مضبوطی،اور استحکام صرف ایک عالمی انقلاب کے پھیلا میں ہی ہے اور ہم کھبی بھی عالمی دنیا سے کٹ کر زندہ نہیں رہ سکتے ہمیں اپنی تمام ترقوتوں کو عالمی انقلاب کے لیے خاص اہمیت دے کر متحرک کرنا ہو گا۔ لیکن 1923میں جب جوزف سٹالن برسراقتدار آیا تو اس نے نہ صرف لینن کے عبوری پروگرام کے خلاف ہر اقدام کیا بلکہ انقلاب کی بنیاد اور عالمی احساس تک کے نشان کو مٹا دیا۔ تیسری انٹرنیشنل کو باقاعدہ ختم کر کے قومی سوشلزم کا تباہ کن نظریہ متعارف کروایا۔سامراج کو شکست دینے کی نجائے اس سے دوستانہ ،مفادپرستانہ معاہدے کیے۔اسرائیل کی خونی جنونی بنیاد پرست سامراج گماشتہ ریاست کو سب سے پہلے تسلیم کر کے انسانیت کے منہ پر کلک تھوپ دیا۔ لینن کے اسباق کو غلط رنگ میں پیش کیا گیا،ٹراٹسکی جو سرخ فوج کا وزیر تھا اور لینن کا قریبی دوست اور انقلاب کا بانی اور نظریہ دان سمیت مخلص اور دیانتدار بالشویک کیڈروں کا قتل عام کیا۔ کیونکہ یہ سٹالن کی آمریت اور انقلاب دشمنی کے خلاف صف آر ہو چکے تھے ٹراٹسکی نے اپنی کتاب ،انقلاب سے غداری، میں لکھا تھا ،سوشلزم کو جمہوریت کی اتنی ضرورت ہے جتنی ایک زندہ جسم کو آکسیجن کی،اس نے مزیدکہ سٹالن افسر شاہی انقلاب کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے جو مزید70 سال بعداس کی زوال پزیری کی شکل میں سامنے آئے گئی یہ حقیقی مارکسی سائنس پر کیا گیا تجزیہ آج ایک ٹھوس سچ ہے۔ جس سے انقلاب کی زوال پذیری کا عمل شروع ہوااور اپنے انجام کو پہنچاجو سٹالن ازم کی ناکامی،تباہی ہے نہ کہ سوشلزم کی بلکہ اس نے مارکسزم کی عالمی نظریاتی سچ کو اور بھی درست ثابت کیا ہے۔ آج عالمی مالیاتی نظام تاریخی استبداد کی نظر ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہر ظلم اور زیادتی کے خلاف اٹھنے والی تحریک براہ راست سرمایہ داری اور سامراج کے خلاف اور سوشلیسٹ انقلاب کے راستے پر چل پڑتی ہے،وینوزویلاکا ہوگو شاویز جو ملک سے بدعنوانی اور غیریبوں پر ظلم کے خلاف میدان عمل میں آیا تھا یہ سوشلیسٹ نہ تھا اور نہ سرمایہ داری ختم کر کے سوشلیسٹ انقلاب چاہتا تھا لیکن آج اس کو اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ احسا س ہو ا چکاہے کے سرمایہ دارانہ نظام میں اصلا حات کی کوئی بھی گنجائش موجود نہیں ہے ملک میں کسی بھی برائی کے خا تمے کے لیے سرمایہ داری اورسامراج کو شکست دینا ضروری ہے طاقت کو اشرفیہ سے چھین کر مزدوروں کو دینا ناگزید ہے اور آج یہ ملکی اشرفیہ اور امریکی سامراج جو اس کے دشمن بن چکے ہیں کے خلاف سینہ سپرہے ،ایک عالمی عوامی اتحاد کی اشدضرورت ہے تاکہ وینوزویلا کے عوام اور انقلاب کا مضبوط دفاع اور تحفوظ کیا جائے اور عالمی سوشلزم کو پھیلایا جا ئے۔ سوشلزم کے خلاف شور کرنے والے پسماندگی،جہالت،بھوک،ننگ،افلاس،جنگ،قتل،جرائم،لوٹ مار،استحصال کے طرف دار ہیںان کا دین ،دھرم،ایمان،سب روپیہ،پیسہ اور اسکی حفاظت ہے اور اس فراڈ کے اوپر سبزچولا،پیلی ،سبز،کالی پگیں یا اسلام کا لیبل ہے اور بس۔ ۔ہمیں ڈٹ کر یہ بات عام کرنی چاہیے کہ اسلام یا کسی بھی مذہب کے نام پر کمائی اور دوکانداری کا سلسلہ فورا بند کیا جائے ۔مذہب خاص شخصی معاملہ ہے ہر انسان کو اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ ۔مذہب ایک ذاتی اور جذباتی مسئلہ ہے اس پر بات یا پراپیگنڈے سے نہ صرف دوسرے عقائد کے لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے بلکہ اس سے تفرقہ بازی ،جنونیت اور قتل وغارت ہوتی ہے جسکی قطعی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ۔ریاست کو مذہب سے الگ کیا جائے تاکہ کسی ایک فرقہ یا مذہب کی بنیاد پر عوام کے طبقاتی استحصال کا خاتمہ کیا جا سکے۔ ۔ تمام مذہبی اور تفرقاتی مدرسوں، پارٹیوں اور تنظیموں پر فورا مکمل پابندی عائد کی جائے۔ اس طرح ہم نہ صرف ترقی کی طرف ایک قدم اٹھائیں گئے بلکہ کفر ازم کے منافقانہ پراپیگنڈے کے استحصالی پردے کو بھی نوچ ڈالیں گئے اور تعصابات سے پاک خالص طبقاتی جدوجہد کو آگے بڑھیں جو تاریخ کا آج اہم ترین فریضہ اور وقت کی اشد ضرورت ہے۔ آخیری جیت ہمشہ سچ کی ہوگی سوشلزم زندہ باد ........معظم کاظمی ......سوشلزم کیا کفر ازم ہے؟

Sample Photo 4

Sample Photo 5

Sample Photo 6

Sample Photo 7

Sample Photo 8

Sample Photo 9

Sample Photo 10

Sample Photo 11

Sample Photo 12